EN हिंदी
ادھر باتیں چھپانے لگ گیا ہے | شیح شیری
idhar baaten chhupane lag gaya hai

غزل

ادھر باتیں چھپانے لگ گیا ہے

پرتاپ سوم ونشی

;

ادھر باتیں چھپانے لگ گیا ہے
وہ کچھ کچھ دور جانے لگ گیا ہے

اکیلے میں ہنسانے لگ گیا ہے
بہت ہی یاد آنے لگ گیا ہے

صبح دن شام راتیں جی اٹھی ہے
کہ وہ قصے سنانے لگ گیا ہے

اداسی اس کی خنجر سی چبھے ہے
مجھے کچھ یوں ستانے لگ گیا ہے

اٹک جاتا ہے جب بھی بولتا ہے
بہانے جو بنانے لگ گیا ہے