EN हिंदी
ابتدا سے میں انتہا کا ہوں | شیح شیری
ibtida se main intiha ka hun

غزل

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں

شاہد کمال

;

ابتدا سے میں انتہا کا ہوں
میں ہوں مغرور اور بلا کا ہوں

تو بھی ہے اک چراغ مہلت شب
میں بھی جھونکا کسی ہوا کا ہوں

پھینک مجھ پر کمند ناز اپنی
آج میں ہم سفر صبا کا ہوں

جس میں ملبوس چاند رہتا ہے
میں بھی تکمہ اسی قبا کا ہوں

مجھ کو اپنا سمجھ رہی ہے تو
میں کسی اور بے وفا کا ہوں

اس میں میری خطا نہیں کوئی
مرتکب بس اسی خطا کا ہوں

زندگی میں ابھی سلامت ہوں
میں اثر تیری بد دعا کا ہوں

مجھ پہ رکھتا ہے تہمت الحاد
میں بھی بندہ اسی خدا کا ہوں

اجڑے خیموں کا سوگوار ہوں میں
میں عزادار کربلا کا ہوں

مجھ کو شاہدؔ کمال کہتے ہیں
میں بھی شاعر ہوں اور بلا کا ہوں