حور و غلماں کے طلب گار سے واقف میں ہوں
صاحب جبہ و دستار سے واقف میں ہوں
شہر میں آپ فرشتوں سے بھی بڑھ کر ٹھہرے
ہاں مگر آپ کے کردار سے واقف میں ہوں
حق نوائی کا سمجھتا ہوں اسے میں انعام
قید و زنداں رسن و دار سے واقف میں ہوں
وہ ہے مجبور طلب سے بھی سوا دینے پر
خوبیٔ جرأت اظہار سے واقف میں ہوں
منصفی چومتی رہتی ہے در اہل دل
اے عدالت ترے کردار سے واقف میں ہوں
سر سلامت ہے تو روزن بھی بنا لوں گا میں
حبس تیرے در و دیوار سے واقف میں ہوں
کبر و نخوت کا ہے الزام عبث انجمؔ پر
اس کے اخلاص سے افکار سے واقف میں ہوں

غزل
حور و غلماں کے طلب گار سے واقف میں ہوں
انجم عظیم آبادی