ہوں میں بھی وہی میرا مقابل بھی وہی ہے
پتھر بھی وہی آئینۂ دل بھی وہی ہے
مجبور ہوں میں آب و ہوا ہے مری مختار
جو لالہ و گل کی ہے مری گل بھی وہی ہے
جیسے وہ کسی آئنہ خانہ میں مکیں ہو
پیکر بھی وہی عکس وہی ظل بھی وہی ہے
یہ خواب کا عالم ہے کہ لمحات ہیں ساکت
میں اب بھی وہیں بیٹھا ہوں محفل بھی وہی ہے
کس فکر میں ہو گھر کی طرف لوٹ بھی جاؤ
جو نقطۂ آغاز ہے منزل بھی وہی ہے
جس نے مجھے پرواز یہ آمادہ کیا تھا
کیا کیجے کہ اب راہ میں حائل بھی وہی ہے
شاہدؔ ہیں ابھی کہر کے بادل جو کبھی تھے
اور برف کی سینے پہ ابھی سل بھی وہی ہے
غزل
ہوں میں بھی وہی میرا مقابل بھی وہی ہے
سلیم شاہد