ہوں میں بھی شعبدہ کوئی دنیا کے سامنے
حیران ہو رہی ہے مجھے پا کے سامنے
ذرے نے آج اپنی حقیقت کو پا لیا
ذرہ نہ سرنگوں ہوا صحرا کے سامنے
اکسا رہی ہے کوئی خلش دیر سے مجھے
رکھ دل سا پھول خار تمنا کے سامنے
خلوت میں کر رہا تھا گناہوں کا اعتراف
ہونٹوں کو وا نہ کر سکا دنیا کے سامنے
آصفؔ تمام مرحلے آسان ہو گئے
ٹھہری نہ اک چٹان بھی دریا کے سامنے
غزل
ہوں میں بھی شعبدہ کوئی دنیا کے سامنے
اعجاز آصف