ہوں کالبد خاک میں مہماں کوئی دن اور
قسمت میں ہے پابندیٔ زنداں کوئی دن اور
ہے دفتر عالم کو ضرورت ابھی میری
کرنی ہے مجھے خدمت عنواں کوئی دن اور
آنے ہی کو ہے موسم گل خیر منا لے
داماں کوئی دن اور گریباں کوئی دن اور
اے ابر یوں ہی قطرۂ فشاں رہ ابھی کچھ روز
مے خواروں پہ ہوتا رہے احساں کوئی دن اور
آمادۂ رخصت ہے مرا عہد جوانی
خاطر کا لہو چوس لے ارماں کوئی دن اور
کچھ روز ٹھہر اور بھی اے شمع شب افروز
پر نور رہے میرا شبستاں کوئی دن اور
کیوں روکش عالم ہے نہال جگر افگار
رہنا تھا نوا سنج غزلخواں کوئی دن اور
غزل
ہوں کالبد خاک میں مہماں کوئی دن اور
نہال سیوہاروی