EN हिंदी
حصول غم بہ الفاظ دگر کچھ اور ہوتا ہے | شیح شیری
husul-e-gham ba-alfaz-e-digar kuchh aur hota hai

غزل

حصول غم بہ الفاظ دگر کچھ اور ہوتا ہے

جلیل الہ آبادی

;

حصول غم بہ الفاظ دگر کچھ اور ہوتا ہے
دل برباد کا عزم سفر کچھ اور ہوتا ہے

طلوع صبح کی کرنیں بہت ہی خوب ہیں لیکن
جمال شہر دل وقت سحر کچھ اور ہوتا ہے

مصائب کس کو کہتے ہیں تمہیں جانو تمہیں سمجھو
جہاں والو ہمارا دل جگر کچھ اور ہوتا ہے

شراب‌ تلخ کیا ہے زہر قاتل تک پیا ہم نے
مگر ان مست نظروں کا اثر کچھ اور ہوتا ہے

مقابل آئنہ کے آئنہ بھی ہم نے دیکھا ہے
گھٹاؤں میں مرا رشک قمر کچھ اور ہوتا ہے

جہاں پابندیاں لازم نہ ہوں سجدہ گزاروں پر
عبادت کے لئے وہ سنگ در کچھ اور ہوتا ہے

جلیلؔ اکثر یہ پایا امتیاز عشق میں ہم نے
ادھر کچھ اور ہوتا ہے ادھر کچھ اور ہوتا ہے