حسن پر دسترس کی بات نہ کر
یہ ہوس ہے ہوس کی بات نہ کر
پوچھ اگلے برس میں کیا ہوگا
مجھ سے پچھلے برس کی بات نہ کر
یہ بتا حال کیا ہے لاکھوں کا
مجھ سے دو چار دس کی بات نہ کر
یہ بتا قافلے پہ کیا گزری
محض بانگ جرس کی بات نہ کر
عشق جان آفریں کا حال سنا
حسن عیسیٰ نفس کی بات نہ کر
یہ بتا عرشؔ سوز ہے کتنا
ساز پر دسترس کی بات نہ کر
غزل
حسن پر دسترس کی بات نہ کر
عرش ملسیانی