حسن نے سیکھیں غریب آزاریاں
عشق کی مجبوریاں لاچاریاں
بہہ گیا دل حسرتوں کے خون میں
لے گئیں بیمار کو بیماریاں
سوچ کر غم دیجئے ایسا نہ ہو
آپ کو کرنی پڑیں غم خواریاں
دار کے قدموں میں بھی پہنچی نہ عقل
عشق ہی کے سر رہیں سرداریاں
اک طرف جنس وفا قیمت طلب
اک طرف میں اور مری ناداریاں
ہوتے ہوتے جان دوبھر ہو گئی
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئیں بے زاریاں
تم نے دنیا ہی بدل ڈالی مری
اب تو رہنے دو یہ دنیا داریاں
غزل
حسن نے سیکھیں غریب آزاریاں
حفیظ جالندھری