حسن کو بے نقاب ہونے دو
عشق کو کامیاب ہونے دو
زیست غرق شراب ہونے دو
ہر حقیقت کو خواب ہونے دو
طور و موسیٰ سے ماورا ہیں ہم
راز کا سد باب ہونے دو
دیکھنا ہے ابھی حیات کو جشن
اک نیا انقلاب ہونے دو
میں بلا نوش و بادہ خوار سہی
میری ہستی خراب ہونے دو
آج کی شب تو ان کی محفل میں
عشق کو باریاب ہونے دو
ملتفت کوئی ہو رہا ہے نظرؔ
لطف اور بے حساب ہونے دو
غزل
حسن کو بے نقاب ہونے دو
نظر برنی