حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
گنہ عشق کب معاف ہوا
لے لیا شکر کر کے ساقی سے
درد اس میں ہوا کہ صاف ہوا
تیغ قاتل پر اپنا خون جم کر
مخمل سرخ کا غلاف ہوا
زہر پرہیز ہو گیا مجھ کو
درد درماں سے المضاف ہوا
خاکساری کی ہو چکی معراج
سینہ اپنا زمین صاف ہوا
کمر یار نے دکھائی آنکھ
مردم دیدہ خال ناف ہوا
وعدہ جھوٹا نکردہ مرد نہیں
قول سے فعل جب خلاف ہوا
فاتحہ کو جو وہ پری آئی
سنگ قبر اپنا کوہ قاف ہوا
اس کمر کے ثبوت میں عاجز
فکر کر کر کے موشگاف ہوا
رند مشرب ہوں مجھ کو کیا ہووے
مذہبوں میں جو اختلاف ہوا
وہ دہن ہوں نہ نکلا حرف غرور
وہ زباں ہوں نہ جس سے لاف ہوا
گرد اس کوچہ کے پھرا آتشؔ
حاجی سے کعبہ کا طواف ہوا
غزل
حسن کس روز ہم سے صاف ہوا
حیدر علی آتش