حسن کا ایک آہ نے چہرہ نڈھال کر دیا
آج تو اے دل حزیں تو نے کمال کر دیا
سہتا رہا جفائے دوست کہتا رہا ادائے دوست
میرے خلوص نے مرا جینا محال کر دیا
مے کدہ میں ہے قحط مے یا کوئی اور بات ہے
پیر مغاں نے کیوں مجھے جام سنبھال کر دیا
جتنے چمن پرست تھے سایۂ گل میں مست تھے
اپنا عروج گلستاں نذر زوال کر دیا
خود مرا سوز جاں گداز چھیڑ سکا نہ دل کا ساز
آپ کی اک نگاہ نے صاحب حال کر دیا
بزم میں سارے اہل ہوش ان کے ستم پہ تھے خموش
ایک جنوں پرست نے اٹھ کے سوال کر دیا
لطف فراق یار نے لذت انتظار نے
دور دل و نگاہ سے شوق وصال کر دیا
سن کے بیان میکدہ دیکھ کے شان میکدہ
شیخ حرم نے بھی فناؔ مے کو حلال کر دیا
غزل
حسن کا ایک آہ نے چہرہ نڈھال کر دیا
فنا نظامی کانپوری