حسن جب قاتل نہ تھا اور عشق دیوانہ نہ تھا
زندگی میں درد و غم کا کوئی افسانہ نہ تھا
سب سے وہ کہتا پھرا میں ہی تھا اس کا آشنا
سامنے آیا تو اس نے مجھ کو پہچانا نہ تھا
رات بھر کچھ آہٹیں دل کی طرف آتی رہیں
ہم تھے جس کے منتظر اس کو مگر آنا نہ تھا
ایک سہمی سی تمنا ایک مبہم سا خیال
اس سے بڑھ کر میرے دل میں کوئی نذرانہ نہ تھا
دیکھیے کس سمت اب کے لے چلے آوارگی
دشت ایسا کون سا تھا ہم نے جو چھانا نہ تھا
شعلۂ غم جل اٹھا تو بجھ گئے سارے چراغ
آتش دل گل ہوئی تو کوئی پروانہ نہ تھا

غزل
حسن جب قاتل نہ تھا اور عشق دیوانہ نہ تھا
شعلہ ہسپانوی