EN हिंदी
حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا | شیح شیری
husn jab maqtal ki jaanib tegh-e-burran le chala

غزل

حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا

حسن بریلوی

;

حسن جب مقتل کی جانب تیغ براں لے چلا
عشق اپنے مجرموں کو پا بجولاں لے چلا

خون ناحق کی حیا بولی ذرا منہ ڈھانک لو
ناز جب ان کو سر خاک شہیداں لے چلا

خاک عاشق روکنے کو دور تک لپٹی گئی
جب سمند ناز کو وہ گرم جولاں لے چلا

جب چلی مقتل سے قاتل کی سواری رات کو
آگے آگے مشعلیں خون شہیداں لے چلا

آرزوئے دید جاناں بزم میں لائی مجھے
بزم سے میں آرزوئے دید جاناں لے چلا

ڈھونڈتی تھی ہر طرف کس کو نگاہ واپسیں
آس کس کے دید کی بیمار ہجراں لے چلا

ناز آزادی حسنؔ وجہ اسیری ہو گیا
مو کشاں دل کو خیال زلف پیماں لے چلا