EN हिंदी
حسن ہیرے کی کنی ہو جیسے | شیح شیری
husn hire ki kani ho jaise

غزل

حسن ہیرے کی کنی ہو جیسے

افضل پرویز

;

حسن ہیرے کی کنی ہو جیسے
اور مری جاں پہ بنی ہو جیسے

تیری چتون کے عجب تیور ہیں
سر پہ تلوار تنی ہو جیسے

ریزہ ریزہ ہوئے مینا و ایاغ
رند و ساقی میں ٹھنی ہو جیسے

اپنی گلیوں میں ہیں یوں آوارہ
کہ غریب الوطنی ہو جیسے

ہر مسافر ترے کوچے کو چلا
اس طرف چھاؤں گھنی ہو جیسے

تیری قربت کی خمار‌ آگینی
رت شرابوں میں سنی ہو جیسے

یہ کشاکش کی مئے مرد افگن
تیری پلکوں سے چھنی ہو جیسے