حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے
کائنات رقصاں ہے زندگی غزل خواں ہے
عشرتوں کے متلاشی غم سے کیوں گریزاں ہے
تیرگی کے پردے میں روشنی کا ساماں ہے
گیت ہیں جوانی ہے ابر ہے بہاریں ہیں
مضطرب ادھر میں ہوں تو ادھر پریشاں ہے
دھوپ ہو کہ بارش ہو تو ہے مونس و ہمدم
مجھ پہ یہ ترا احساں اے غم فراواں ہے
رند بخل ساقی پر کس قدر تھے کل برہم
مے کدہ ہے آج اپنا اور تنگ داماں ہے
اف دو رنگیٔ دنیا اف تضاد کا عالم
کفر کے اجالے ہیں تیرگیٔ ایماں ہے
بے نقاب دیکھا تھا خواب میں انہیں اک شب
آج تک نگاہوں میں اے ضیاؔ چراغاں ہے
غزل
حسن ہے محبت ہے موسم بہاراں ہے
ضیا فتح آبادی