EN हिंदी
حسن ہے مغرور دل سودائی ہے | شیح شیری
husn hai maghrur dil saudai hai

غزل

حسن ہے مغرور دل سودائی ہے

منّان بجنوری

;

حسن ہے مغرور دل سودائی ہے
عشق اور نفرت میں ہاتھا پائی ہے

دھڑکنوں میں کر دیا پیدا فساد
ہر ادا میں تیری اک بلوائی ہے

ہم نے خود دیکھی ہے دست غیر میں
تیری تو تصویر بھی ہرجائی ہے

وجد آنکھوں میں ہے باسی نیند کا
وصل کی جب سے کرم فرمائی ہے

تم کو دیکھے بن گزرنا چھیڑ تھا
دل پہ مت لو داغ دل دکھ دائی ہے

دل لگی ہے ابتدائے‌‌ دلبری
چاہتوں میں چھیڑ چھاڑ اچھائی ہے

کتنی شرمیلی ہے منانؔ اس کی یاد
درد کے پردے میں چھپ کر آئی ہے