حسن شوخ چشم میں نام کو وفا نہیں
درد آفریں نظر درد آشنا نہیں
ننگ عاشقی ہے وہ ننگ زندگی ہے وہ
جس کے دل کا آئینہ تیرا آئینہ نہیں
آہ اس کی بے کسی تو نہ جس کے ساتھ ہو
ہائے اس کی بندگی جس کا تو خدا نہیں
حیف وہ الم نصیب جس کا درد تو نہ ہو
اف وہ درد زندگی جس کی تو دوا نہیں
دوست یا عزیز ہیں خود فریبیوں کا نام
آج آپ کے سوا کوئی آپ کا نہیں
اپنے حسن کو ذرا تو مری نظر سے دیکھ
دوست! شش جہات میں کچھ ترے سوا نہیں
بے وفا خدا سے ڈر طعنۂ وفا نہ دے
تاجورؔ میں اور عیب کچھ ہوں بے وفا نہیں

غزل
حسن شوخ چشم میں نام کو وفا نہیں
تاجور نجیب آبادی