حسن معصوم اگر راز نہاں تک پہنچے
غم کا معیار خدا جانے کہاں تک پہنچے
عشق میں یوں تو سبھی سود و زیاں تک پہنچے
کم ہیں ایسے جو مرے عزم جواں تک پہنچے
ہم پہنچنے کو تو ہر وہم و گماں تک پہنچے
تم وہاں ہو کہ نظر بھی نہ جہاں تک پہنچے
وہ مصیبت جسے دنیا غم دل کہتی ہے
میں نہ روکوں تو خدا جانے کہاں تک پہنچے
تم کہیں جا کے چھپو دعوت نظارہ تو دو
پھر یہ مقدور نظر ہے کہ جہاں تک پہنچے
حکم ہے چاہے گلستاں کا گلستاں جل جائے
ہاتھ لیکن نہ کوئی برق تپاں تک پہنچے
تم رہ عشق میں للہ مرا ساتھ نہ دو
سلسلہ غم کا خدا جانے کہاں تک پہنچے
اف وہ نظریں جو محبت کا بھرم رکھ نہ سکیں
ہائے وہ کیف جو احساس گراں تک پہنچے
راز الفت میں چھپاتا تو ہوں لیکن ارشدؔ
ڈر ہے احساس کی تلخی نہ زباں تک پہنچے
غزل
حسن معصوم اگر راز نہاں تک پہنچے
ارشد صدیقی