حسن فطرت کے امیں قاتل کردار نہ بن
شہرت غم کے لئے رونق بازار نہ بن
تارک رسم وفا اور گنہ گار نہ بن
محرم عشق ہے تو محرم اسرار نہ بن
اپنی گردن پہ مچلتی ہوئی تلوار نہ بن
ننگ ایماں ہی سہی صورت انکار نہ بن
بد گمانی کو مری اور بڑھا دیتا ہے
ان کا یہ کہنا کہ دامن کش اغیار نہ بن
رہرو منزل ہستی ہوں میں اے یاد حبیب
دھوپ میں میرے لئے سایۂ دیوار نہ بن
دل کو تکمیل تمنا کا اشارہ دے کر
مجھ سے تو میری تمنا کا خریدار نہ بن
تیری منزل ہے غبار رہ ارباب وفا
رہرو راہ طلب قافلہ سالار نہ بن
جن کے دامن میں تمنا کو سکوں ملتا ہے
ان کی نظروں سے محبت کا طلب گار نہ بن
وہ تری مست نگاہی کا اڑا لیں گے مذاق
اہل دانش میں کبھی بھول کے ہشیار نہ بن
ہو نہ جائے کہیں مسدود تری راہ طلب
اے مری لوح جبیں سنگ در یار نہ بن
غزل
حسن فطرت کے امیں قاتل کردار نہ بن
فطرت انصاری