حسن بھی ہے پناہ میں عشق بھی ہے پناہ میں
اک تری نگاہ میں اک مری نگاہ میں
کھیل نہیں ہنسی نہیں حال میرا سن نہ سن
درد ہے دو جہان کا عشق کی ایک آہ میں
خوگر ظلم و جور کو شکوۂ التفات ہے
قلب سے اٹھ کے چھا گئی غم کی گھٹا نگاہ میں
تا بہ حد دید ہے ایک صراط مستقیم
حاجت راہ بر نہیں عشق کی شاہراہ میں
دست کرم بڑھا دیا اس نے بلا لحاظ جرم
قابل رحم کچھ نہ تھا ورنہ مرے گناہ میں
کچھ مری بے قراریاں کچھ مری ناتوانیاں
کچھ تری رحمتوں کا ہے ہاتھ مرے گناہ میں
لالہ و گل کی محفلیں اپنی جگہ پہ کچھ نہ تھی
جام بہار بن گئے کھنچ کے مری نگاہ میں
غزل
حسن بھی ہے پناہ میں عشق بھی ہے پناہ میں
حیرت گونڈوی