حسن اور عشق کو فرق نظری کیوں کہئے
مے کی تاثیر کو اک بے خبری کیوں کہئے
ہر نفس زیست کا ہو جائے اگر وقف تلاش
جستجو کہئے اسے در بدری کیوں کہئے
کوہ و صحرا ہی نہیں عرش کی لاتا ہوں خبر
میری پرواز کو بے بال و پری کیوں کہئے
کشتیاں ڈوب کے ابھریں جو کسی طوفاں میں
ناخداؤں کی اسے دیدہ وری کیوں کہیے
بجھتے بجھتے بھی اندھیروں کی رہے جو دشمن
ایسی ہستی کو چراغ سحری کیوں کہئے
جب سلجھتی نہ ہو کوشش سے بھی الجھی ہوئی بات
پھر تو حالات کو آفت سے بری کیوں کہئے
ایک کوشش تھی جو ناکام رہی قسمت سے
عصرؔ کچھ کہئے اسے بے ہنری کیوں کہئے

غزل
حسن اور عشق کو فرق نظری کیوں کہئے
محمد نقی رضوی عصر