ہشیار ہیں تو ہم کو بہک جانا چاہئے
بے سمت راستہ ہے بھٹک جانا چاہئے
دیکھو کہیں پیالے میں کوئی کمی نہ ہو
لبریز ہو چکا تو چھلک جانا چاہئے
حرف رجز سے یوں نہیں ہوتا کوئی کمال
باطن تک اس صدا کی دھمک جانا چاہئے
گرتا نہیں مصاف میں بسمل کسی طرح
اب دست نیزہ کار کو تھک جانا چاہئے
طے ہو چکے سب آبلہ پائی کے مرحلے
اب یہ زمیں گلابوں سے ڈھک جانا چاہئے
شاید پس غبار تماشا دکھائی دے
اس رہگزر پہ دور تلک جانا چاہئے
غزل
ہشیار ہیں تو ہم کو بہک جانا چاہئے
عرفانؔ صدیقی