ہنر مندی سے جینے کا ہنر اب تک نہیں آیا
سفر کرتے رہے طرز سفر اب تک نہیں آیا
غلط ہے تیرے اشکوں میں اثر اب تک نہیں آیا
تجھے رونا اے میری چشم تر اب تک نہیں آیا
ہزاروں فلسفی قبضہ کئے بیٹھے ہیں ذہنوں پر
مرے قابو میں یارب میرا سر اب تک نہیں آیا
پڑا رہتا ہے ہر دم خوف کا سایہ رگ جاں پر
کوئی بے خوف لمحہ بے خطر اب تک نہیں آیا
ہمارے سر پہ ہے سایہ فگن امید کا سورج
ہماری راہ میں کوئی شجر اب تک نہیں آیا
ہمیں تو قافیہ پیمائی کرنا بھی نہیں آتا
بڑا فن ہے جو آ جاتا مگر اب تک نہیں آیا
وہ کہتے ہیں دعائیں با اثر ہوتی ہیں خالدؔ کی
میں کہتا ہوں کوئی زیر اثر اب تک نہیں آیا
غزل
ہنر مندی سے جینے کا ہنر اب تک نہیں آیا
خالد ؔمحمود