EN हिंदी
حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں | شیح شیری
hukmaran jab se huin basti pe afwahen wahan

غزل

حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں

شہرام سرمدی

;

حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں
دن ڈھلے ہی بین کرتی ہیں عجب راتیں وہاں

اک غروب بے نشاں کی سمت رستے پر ہوں میں
خوف یہ درپیش ہوں گی کیسی دنیائیں وہاں

بارہا دیکھی ہے ان کوچوں نے شب مستی مری
آج بھی اک گھر کے بام و در شناسا ہیں وہاں

کیا تجھے مسماریٔ دل کی خبر کوئی نہ تھی
کس لیے بھیجیں نہ تو نے پھر ابابیلیں وہاں

ایک دفعہ تو یہاں آ کر مجھے حیران کر
کیا ضروری ہے کہ تجھ سے ملنے آؤں میں وہاں