حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں
دن ڈھلے ہی بین کرتی ہیں عجب راتیں وہاں
اک غروب بے نشاں کی سمت رستے پر ہوں میں
خوف یہ درپیش ہوں گی کیسی دنیائیں وہاں
بارہا دیکھی ہے ان کوچوں نے شب مستی مری
آج بھی اک گھر کے بام و در شناسا ہیں وہاں
کیا تجھے مسماریٔ دل کی خبر کوئی نہ تھی
کس لیے بھیجیں نہ تو نے پھر ابابیلیں وہاں
ایک دفعہ تو یہاں آ کر مجھے حیران کر
کیا ضروری ہے کہ تجھ سے ملنے آؤں میں وہاں

غزل
حکمراں جب سے ہوئیں بستی پہ افواہیں وہاں
شہرام سرمدی