ہجوم یاس میں ماں کی دعا ملتی رہی ہے
یہ دولت زندگی میں بارہا ملتی رہی ہے
کسی کا کچھ بگاڑا ہی نہیں ہم نے زمانے میں
ہمیں تو خواب لکھنے کی سزا ملتی رہی ہے
ترے در تک پہنچنے کی کبھی نوبت نہیں آئی
کہ رستے میں ہمیں اپنی انا ملتی رہی ہے
بچا کے لاکھ رکھا تو نے اپنے دامن دل کو
مگر زخموں کو پھر بھی کچھ ہوا ملتی رہی ہے
اگر ہم غور سے دیکھیں تو اب محسوس ہوتا ہے
کہ وہ ہم سے یوں ہی بے مدعا ملتی رہی ہے
کہیں بھی ہاتھ پھیلائے نہیں تیرے سوا ہم نے
ہمیں ہر موڑ پر تیری عطا ملتی رہی ہے

غزل
ہجوم یاس میں ماں کی دعا ملتی رہی ہے
صفدر سلیم سیال