ہجوم یاس میں لینے وہ کب خبر آیا
اجل نہ آئی تو غش کس امید پر آیا
بچھے ہیں کوئے ستم گر میں جا بجا خنجر
رگ گلو کا لہو پاؤں میں اتر آیا
دکھائی مرگ نے کیا کیا بلندی و پستی
چلے زمیں کے تلے آسماں نظر آیا
ہمیشہ عفو ترا ہے گناہ کا حامی
ہمیشہ رحم تجھے میرے حال پر آیا
بتوں میں کوئی بھلائی بھی ہے سوائے ستم
برا ہو تیرا دل ناسزا کدھر آیا
بنائی بات بگڑنے نے روز محشر بھی
اٹھے ہیں خاک سے ہم جب وہ گور پر آیا
کہاں کی آہ و بکا بات بن گئی شعلہؔ
زباں کے ہلتے ہی فریاد میں اثر آیا
غزل
ہجوم یاس میں لینے وہ کب خبر آیا
شعلہؔ علی گڑھ