EN हिंदी
ہجوم درد ملا زندگی عذاب ہوئی | شیح شیری
hujum-e-dard mila zindagi azab hui

غزل

ہجوم درد ملا زندگی عذاب ہوئی

شہریار

;

ہجوم درد ملا زندگی عذاب ہوئی
دل و نگاہ کی سازش تھی کامیاب ہوئی

تمہاری ہجر نوازی پہ حرف آئے گا
ہماری مونس و ہمدم اگر شراب ہوئی

یہاں تو زخم کے پہرے بٹھائے تھے ہم نے
شمیم زلف یہاں کیسے باریاب ہوئی

ہمارے نام پہ گر انگلیاں اٹھیں تو کیا
تمہاری مدح و ستائش تو بے حساب ہوئی

ہزار پرسش غم کی مگر نہ اشک بہے
صبا نے ضبط یہ دیکھا تو لا جواب ہوئی