ہجوم درد ملا امتحان ایسا تھا
مگر وہ چپ ہی رہا بے زبان ایسا تھا
کسی کی عزت و ناموس پر نہ آنچ آئی
لٹا تو اف بھی نہ کی مہربان ایسا تھا
زمانہ گزرا مگر داغ رہ گیا دل پر
نہ مٹ سکا کسی صورت نشان ایسا تھا
بدن کی شاخ سے اس کے کرن جو لپٹی تھی
وہ سہہ سکا نہ اسے دھان پان ایسا تھا
متاع زیست لٹا دی گئی مگر اس نے
ذرا بھی قدر نہ کی بد گمان ایسا تھا
نظر شناس تھا کیسا کہ عمر بھر انجمؔ
بھلا سکا نہ اسے میہمان ایسا تھا
غزل
ہجوم درد ملا امتحان ایسا تھا
غیاث انجم