EN हिंदी
ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا | شیح شیری
hujum-e-aish-o-tarab mein bhi hai bashar tanha

غزل

ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا

علی جواد زیدی

;

ہجوم عیش و-طرب میں بھی ہے بشر تنہا
نفس نفس ہے مہاجر نظر نظر تنہا

یہ میرا عکس ہے آئینے میں کہ دشمن ہے
اداس تشنۂ ستم دیدہ بے خبر تنہا

یہ قتل گاہ بھی ہے بال پن کا آنگن بھی
بھٹک رہی ہے جہاں چشم معتبر تنہا

برا نہ مان مرے ہم سفر خدا کے لئے
چلوں گا میں بھی اسی راہ پر مگر تنہا

نہ جانے بھیگی ہیں پلکیں یہ کیوں دم رخصت
کہ گھر میں بھی تو رہا ہوں میں عمر بھر تنہا

نہ بزم خلوتیاں ہے نہ حشر گاہ عوام
اندھیری رات کروں کس طرح بسر تنہا

کسی غزل کا کوئی شعر گنگناتے چلیں
طویل راہیں وفا کی ہیں اور سفر تنہا

نثار کر دوں یہ پلکوں پہ کانپتی یادیں
ترا خیال جو آئے دم سحر تنہا

جدھر بھی جاؤ کوئی راہ روک لیتا ہے
وفا نے چھوڑی نہیں ایک بھی ڈگر تنہا

برت لو یارو برتنے کی چیز ہے یہ حیات
ہو لاکھ ترسی ہوئی تلخ مختصر تنہا

امید کتنی ہی مایوسیوں کی مشعل ہے
ہو رہ گزار میں جیسے کوئی شجر تنہا

جدھر سے گزرے تھے معصوم حسرتوں کے جلوس
سنا کہ آج ہے زیدیؔ وہی ڈگر تنہا