ہوئی تو جا دل میں اس صنم کی نماز میں سر جھکا جھکا کر
حرم سے بت خانے تک تو پہنچا خدا خدا کر خدا خدا کر
لحد میں کیا ذکر روشنی کا سر لحد بھی جو رحم کھا کر
جلا کیا جب چراغ کوئی ہوا نے ٹھنڈا کیا بجھا کر
نشان برباد گان عالم جو پوچھے صحرا میں ہم نے جا کر
صبا سے اڑ اڑ کے گرد بیٹھی بگولے اٹھے ہوا میں آ کر
جو چشم انجام بیں سے دیکھا بہار دو دن ہے پھر خزاں ہے
مآل گلشن پہ روئی شبنم ہنسے گل تر جو کھل کھلا کر
بتوں کی پر آب انکھڑیوں میں کھلا یہ دیکھا جو پتلیوں کو
یہ وہ ہیں ہندو دھرم جمن سے پھرے جو گنگا چلے نہا کر
خیال حج حرم کو چھوڑا سنا جو شہ رگ سے ہے قریں تر
طواف دل ہی کیا کیے ہم گئے نہ کعبے کو پھیر کھا کر
زمیں میں اے شادؔ مر گئے پر فلک دبائے تو کیا گلہ ہے
میان تربت ہمارے پہلو ہمیں دباتے ہیں مردہ پا کر
غزل
ہوئی تو جا دل میں اس صنم کی نماز میں سر جھکا جھکا کر
شاد لکھنوی