EN हिंदी
ہوئی شکل اپنی یہ ہم نشیں جو صنم کو ہم سے حجاب ہے | شیح شیری
hui shakl apni ye ham-nashin jo sanam ko humse hijab hai

غزل

ہوئی شکل اپنی یہ ہم نشیں جو صنم کو ہم سے حجاب ہے

نظیر اکبرآبادی

;

ہوئی شکل اپنی یہ ہم نشیں جو صنم کو ہم سے حجاب ہے
کبھی اشک ہے کبھی آہ ہے کبھی رنج ہے کبھی تاب ہے

ذرا در پہ اس کے پہنچ کے ہم جو بلاویں اس کو تو دوستو
کبھی غصہ ہے کبھی چھیڑ ہے کبھی حیلہ ہے کبھی خواب ہے

جو اس انجمن میں ہیں بیٹھتے تو مزاج اس کے سے ہم کو واں
کبھی عجز ہے کبھی بیم ہے کبھی رسم ہے کبھی داب ہے

وہ ادھر سے جا کے جو آتا ہے اسے دونوں حال سے دل میں یاں
کبھی سوچ ہے کبھی فکر ہے کبھی غور ہے کبھی تاب ہے

جو وہ بعد بوسہ کے ناز سے ذرا جھڑکے ہے تو نظیرؔ کو
کبھی مصری ہے کبھی قند ہے کبھی شہد ہے کبھی راب ہے