ہوئی مدتیں اے دل حزیں نہ پیام ہے نہ سلام ہے
کہ اسی کو کہتے ہیں دوستی کہ اسی کا دوستی نام ہے
کبھی جائے باد صبا ادھر تو یہ کہنا اس کی بھی ہے خبر
بجز ایک غم کے سوا ترے جسے کھانا پینا حرام ہے
تو سکون و صبر مٹائے جا غم عشق مجھ کو رلائے جا
ہو تڑپ تڑپ کے سحر مجھے یہی درد دل ترا کام ہے
میں دکھاؤں کس کو یہ حال دل میں سناؤں کس کو یہ حال دل
کہیں مجھ سے خانہ بدوش کو نہ قرار ہے نہ قیام ہے
مجھے درد تو نے عطا کیا مرے مہرباں ترا شکریہ
بنا درد دل ترا زندگی ترے درد دل سے ہی کام ہے
نہ قرار آئے کسی طرح مرے درد دل تو ترقی کر
شب غم تڑپتے ہی ہو سحر شب غم تڑپنے سے کام ہے
یہ کیسی اس کی ہے دوستی یہ بتا تو مجھ کو دل حزیں
نہیں جس کو دور کا واسطہ اسے دور ہی سے سلام ہے
وہ نظر بچا کے چلا گیا میں یہ رازؔ کہتا ہی رہ گیا
ذرا جانے والے یہ بات سن یہ بتا تو کیا ترا نام ہے
غزل
ہوئی مدتیں اے دل حزیں نہ پیام ہے نہ سلام ہے
بشیر الدین راز