EN हिंदी
ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو | شیح شیری
hui hai sham to aankhon mein bas gaya phir tu

غزل

ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو

احمد فراز

;

ہوئی ہے شام تو آنکھوں میں بس گیا پھر تو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو

مری مثال کہ اک نخل خشک صحرا ہوں
ترا خیال کہ شاخ چمن کا طائر تو

میں جانتا ہوں کہ دنیا تجھے بدل دے گی
میں مانتا ہوں کہ ایسا نہیں بظاہر تو

ہنسی خوشی سے بچھڑ جا اگر بچھڑنا ہے
یہ ہر مقام پہ کیا سوچتا ہے آخر تو

فضا اداس ہے رت مضمحل ہے میں چپ ہوں
جو ہو سکے تو چلا آ کسی کی خاطر تو

فرازؔ تو نے اسے مشکلوں میں ڈال دیا
زمانہ صاحب زر اور صرف شاعر تو