EN हिंदी
ہوئی دل ٹوٹنے پر اس طرح دل سے فغاں پیدا | شیح شیری
hui dil TuTne par is tarah dil se fughan paida

غزل

ہوئی دل ٹوٹنے پر اس طرح دل سے فغاں پیدا

فاضل انصاری

;

ہوئی دل ٹوٹنے پر اس طرح دل سے فغاں پیدا
کہ جیسے شمع کے بجھنے سے ہوتا ہے دھواں پیدا

رہا ثابت قدم یوں ہی اگر عزم سفر اپنا
کرے گی خود رہ‌ دشوار ہی آسانیاں پیدا

ہر اک تعمیر خود اپنی تباہی ساتھ لاتی ہے
نہ گرتی برق گر ہوتی نہ شاخ آشیاں پیدا

مری خواہش کہ اک سجدہ مٹا دے نام پیشانی
تری خواہش ہو پیشانی پہ سجدوں کا نشاں پیدا

وہ جن کی موت پر روتے ہیں برسوں جام و پیمانہ
اب ایسے بادہ کش ہوتے ہیں اے ساقی کہاں پیدا

ضرورت کیا کریں ہم جستجوے آستاں اے دل
سلامت ذوق سجدہ آپ ہوگا آستاں پیدا

نظر میں جن کی رنگینی طبیعت میں ہے رعنائی
وہ کر لیتے ہیں فاضلؔ دشت میں بھی گلستاں پیدا