ہوئی دستک کوئی آیا نہیں کوئی نہیں ہے
ہمیں اب پوچھنے والا کہیں کوئی نہیں ہے
بہت آباد ہیں یہ بے در و دیوار سے گھر
محل ایسے بھی ہیں جن میں کمیں کوئی نہیں ہے
جھجکتے ہیں اشاروں سے بھی دل کی بات کرتے
کہ شیشہ گھر میں رازوں کا امیں کوئی نہیں ہے
اب اک اندھے کنوئیں میں گرتے جانا زندگی ہے
اب اپنے پاؤں کے نیچے زمیں کوئی نہیں ہے
ذرا سن تو کہ اب مظلوم نا امید ہو کر
یہ کہتے ہیں سر عرش بریں کوئی نہیں ہے
غزل
ہوئی دستک کوئی آیا نہیں کوئی نہیں ہے
احسن علی خاں