ہوئے مجھ سے جس گھڑی تم جدا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مری ہر نظر تھی اک التجا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ تمہارا کہنا کہ جائیں گے اگر آ سکے تو پھر آئیں گے
اسے اک زمانہ گزر گیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مری بے قراریاں دیکھ کر مجھے تم نے دی تھیں تسلیاں
مرا چہرہ پھر بھی اداس تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مری بے بسی نے زبان تک جسے لا کے تم کو رلا دیا
مرے ٹوٹے ساز کی وہ صدا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تمہیں چند قطرۂ اشک بھی کیے پیش جس کے جواب میں
وہ سلام نیچی نگاہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
مرے شانے پر یہی زلف تھی جو ہے آج مجھ سے کھنچی کھنچی
مرے ہاتھ میں یہی ہاتھ تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہاتھ میں جو شراب لی وہیں تم نے چھین کے پھینک دی
مجھے یاد ہے مرے پارسا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہیں تم کو جانا ہوا اگر نہ گئے بغیر نذیرؔ کے
وہ زمانہ اپنے نذیرؔ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
غزل
ہوئے مجھ سے جس گھڑی تم جدا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
نذیر بنارسی