EN हिंदी
ہوئے جناب میں اب تک نہ تیرے ہم گستاخ | شیح شیری
hue janab mein ab tak na tere hum gustaKH

غزل

ہوئے جناب میں اب تک نہ تیرے ہم گستاخ

ماہ لقا چنداؔ

;

ہوئے جناب میں اب تک نہ تیرے ہم گستاخ
خدا کے واسطے ہم سے نہ ہو صنم گستاخ

چھپایا راز محبت کو دل میں پر ہیہات
کرے ہے نام مرا بد یہ چشم نم گستاخ

جو آوے جی میں سو کہہ لے میں ہوں وہ اے پیارے
رہوں ہزار حضوری میں پر ہوں کم گستاخ

کہا گلے سے لگا لے تو التفات نہیں
کہے ہے تس پہ مجھے کیوں تو دمبدم گستاخ

یہی امید ہے چنداؔ کو خوب رویوں میں
رکھے ہمیشہ تیرا یا علی کرم گستاخ