ہوئے جمع افکار سر میں بہت
پڑے پیچ عرض ہنر میں بہت
گریزاں ہے ہر منظر جسم و جاں
کوئی شے ہے اندر سفر میں بہت
ستانے کو باہر بلائیں کئی
ڈرانے کو آسیب گھر میں بہت
کہوں کیا کہ ہے سانس دیکھی ہوئی
ہوا بند ہے اس نگر میں بہت
امید ثمر رکھ نہ شاہیںؔ ابھی
کہ زہر خزاں ہے شجر میں بہت
غزل
ہوئے جمع افکار سر میں بہت
جاوید شاہین