ہوئے ہو کس لئے برہم عزیزم
سر تسلیم ہے لو خم عزیزم
چراغ حجرۂ جاں کی خبر لو
لبوں پر آ گیا ہے دم عزیزم
نہیں بھرتا یہ زخم ہجر اپنا
لگاؤ وصل کا مرہم عزیزم
تم آتے ہو تو دم آتا ہے گویا
تم آتے ہو مگر کم کم عزیزم
نبود و بود کی اس کشمکش میں
عجب ہے حالت پیہم عزیزم
تو ہی تو ہے میں قطرہ تو سمندر
یہ من آنم کہ من دانم عزیزم
ہمی ہیں کشتگان وقت رفتہ
عزیز از جان ہیں یہ غم عزیزم
وجود رفتۂ رفتار منزل
سرائے ہستیٔ عالم عزیزم
خمار تشنہ کامی چشم گوئم
شنیدن عکس جام جم عزیزم
غزل
ہوئے ہو کس لئے برہم عزیزم
تسنیم عابدی