EN हिंदी
ہوئے ہیں پھر سے اندھیروں کے حوصلے روشن | شیح شیری
hue hain phir se andheron ke hausle raushan

غزل

ہوئے ہیں پھر سے اندھیروں کے حوصلے روشن

نونیت شرما

;

ہوئے ہیں پھر سے اندھیروں کے حوصلے روشن
قلم سنبھال اندھیرے کو جو لکھے روشن

یہ سوکھی جھیلیں تھیں ان میں کہاں سے آئی باڑھ
ہماری آنکھوں میں ہیں کس کے تجربے روشن

یہ اور بات ہوا نے بجھا دیئے کافی
تمہاری یاد کے لیکن ہیں کچھ دیے روشن

تمہیں چمکنا ہے تو لکھو ہم کو صفحوں پر
ہمارے ہونے سے ہوتے ہیں حاشیے روشن

اداس شام ہے اور سارے بنچ خالی ہیں
کوئی زمانہ تھا ہوتے تھے قہقہے روشن

ذرا سی دیر کو سائے میں ان کے آیا تھا
یقین جانو ہوئے سارے زاویے روشن

مرے قریب کوئی خواب کیسے آ پاتا
کہ مجھ میں رہتے ہیں برسوں سے رت جگے روشن

اب ان پہ دھند قیامت کی دھند طاری ہے
تمہارے ساتھ جو ہوتے تھے مرحلے روشن

حقیقتاً اسے دیکھا کہاں ہے مدت سے
ہیں جس کی دید کے خوابوں میں واقعے روشن

گرے جو یاد کی جیکٹ پہ یاد کے پھاہے
اندھیرے دل میں ہوئے خوب ولولے روشن

کیا معاف جو اک دوسرے سے دور رہے
قریب آئے، ہوئے سارے فاصلے روشن

میں تیرگی سہی لیکن کبھی کبھی مجھ میں
حضور کوئی تو پہلو نکالئے روشن