EN हिंदी
ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے | شیح شیری
hue hain gum jis ki justuju mein usi ki hum justuju karenge

غزل

ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

ہوئے ہیں گم جس کی جستجو میں اسی کی ہم جستجو کریں گے
رکھا ہے محروم جس نے ہم کو اسی کی ہم آرزو کریں گے

گئے وہ دن جب کہ اس چمن میں ہوائے نشو و نما تھی ہم کو
خزاں کو دیکھا نہیں ہے ہم نے کہ خواہش رنگ و بو کریں گے

حکایت آرزو ہے نازک زبان کیا خاک کہہ سکے گی
لب خموش و نگاہ حسرت سے دل کی ہم گفتگو کریں گے

جگہ جو آنکھوں میں میں نے دی تھی تو ان سے تھی چشم راز داری
یہ کیا خبر تھی کہ اشک میرے مجھی کو بے آبرو کریں گے

ابھی تو گم کردہ راہ خود ہیں مئے محبت کی بے خودی میں
اگر کبھی آپ میں ہم آئے تو اس کی بھی جستجو کریں گے

اس انجمن میں کہ چشم ساقی کفیل ہو عیش زندگی کی
وہ بادہ خواری میں خام ہوں گے جو فکر جام و سبو کریں گے

طہارت‌ ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے گی صفائے باطن
بہا کے ہم خون توبہ وحشتؔ اسی سے اک دن وضو کریں گے