ہوئے عازم ملک عدم جو ہوسؔ تو خوشی یہ ہوئی تھی کہ غم سے چھٹے
پر فراغ الم سے نہ واں بھی ملا واں غم یہ ہوا کہ وہ ہم سے چھٹے
کبھی دیر میں تھے کسی بت پہ فدا کبھی کعبہ میں کرتے جا کے دعا
ترے کوچے میں بیٹھے تو خوب ہوا کہ کشاکش دیر و حرم سے چھٹے
یہی کہتی تھی لیلیٔ پردہ نشیں کہ فراق کی اب اسے تاب نہیں
ملوں اس سے میں تا مرا قیس خزیں غم ہجر کے درد و الم سے چھٹے
میں ہوا بھی جو بسمل تیغ جفا ولے باقی ہے دل میں ابھی یہ وفا
کہ یقیں ہے لہو مرا جائے حنا جو لگے تو نہ پاۓ صنم سے چھٹے
نہ ہو بستۂ چین کمند و رسن رہے بھاگتا ہے وہ بہ دشت ختن
تری چشم ہو اس پہ جو سایہ فگن کبھی پاے غزال نہ رم سے چھٹے
نہ کیوں شاکی ہوں بخت سیاہ سے ہم کہ وہ معدن شفقت و لطف و کرم
کرے نالۂ شوق جو ہم کو رقم تو سیاہی نہ نوک قلم سے چھٹے
مجھے رہ میں ملے تھے وہ باندھے کمر چلے جاتے تھے باغ کو وقت سحر
انہیں لاتا پکڑ مجھے کس کا تھا ڈر پہ فریب کے قول و قسم سے چھٹے
ہوئے خوف سے گوشہ گزین عسس گیا سینہ پلنگ فلک کا جھلس
شب ہجر میں یارو بغیر ہوسؔ مرے نالے جو شیر اجم سے چھٹے
غزل
ہوئے عازم ملک عدم جو ہوسؔ تو خوشی یہ ہوئی تھی کہ غم سے چھٹے
مرزا محمد تقی ہوسؔ