حدود قریہ وہم و گماں میں کوئی نہیں
مرے علاوہ مرے کارواں میں کوئی نہیں
چراغ جلتے ہیں کیوں رات بھر مرے دل میں
بہت دنوں سے اگر اس مکاں میں کوئی نہیں
ہے میری فتح و ہزیمت کا کیوں اثر اس پر
شریک اگر مرے سود و زیاں میں کوئی نہیں
ٹھہر سکے جو مرے سامنے گھڑی دو گھڑی
وہ شہسوار صف دشمناں میں کوئی نہیں
بھٹک رہا ہوں ہجوم نجوم میں تنہا
کہ مجھ سا اور کسی کہکشاں میں کوئی نہیں
عجیب ایک مسرت سے آشنا ہیں وہ
اسیر غم ترے آشفتگاں میں کوئی نہیں
ملی ہو جس کو وراثت میں عمر بھر ساجدؔ
وہ خوش نصیب کسی خاک داں میں کوئی نہیں

غزل
حدود قریہ وہم و گماں میں کوئی نہیں
غلام حسین ساجد