ہوا ظاہر خط روئے نگار آہستہ آہستہ
کہ جیوں گلشن میں آتی ہے بہار آہستہ آہستہ
کیا ہوں رفتہ رفتہ رام اس کی چشم وحشی کوں
کہ جیوں آہو کوں کرتے ہیں شکار آہستہ آہستہ
جو اپنے تن کوں مثل جوئبار اول کیا پانی
ہوا اس سرو قد سوں ہم کنار آہستہ آہستہ
برنگ قطرۂ سیماب میرے دل کی جنبش سوں
ہوا ہے دل صنم کا بے قرار آہستہ آہستہ
اسے کہنا بجا ہے عشق کے گل زار کا بلبل
جو گل رویاں میں پایا اعتبار آہستہ آہستہ
مرا دل اشک ہو پہنچا ہے کوچے میں سریجن کے
گیا کعبے میں یہ کشتی سوار آہستہ آہستہ
ولیؔ مت حاسداں کی بات سوں دل کوں مکدر کر
کہ آخر دل سوں جاوے گا غبار آہستہ آہستہ
غزل
ہوا ظاہر خط روئے نگار آہستہ آہستہ
ولی محمد ولی