ہوا نہیں ہے ابھی منحرف زبان سے وہ
ستارے توڑ کے لائے گا آسمان سے وہ
نہ ہم کو پار اتارا نہ آپ ہی اترا
لپٹ کے بیٹھا ہے پتوار و بادبان سے وہ
ہماری خیر ہے عادی ہیں دھوپ سہنے کے ہم
ہوا ہے آپ بھی محروم سائبان سے وہ
تمام بزم پہ چھایا ہوا ہے سناٹا
اٹھا ہے شخص کوئی اپنے درمیان سے وہ
ابھی تو رفعتیں کیا کیا تھیں منتظر اس کی
ابھی پلٹ کے بھی آیا نہ تھا اڑان سے وہ
ہزار میلا کیا دل کو اس کی جانب سے
کسی بھی طور اترتا نہیں ہے دھیان سے وہ
اب اس کی یاد اب اس کا ملال کیسا ہے
نکل گیا جو پرے سرحد گمان سے وہ
وہ جس سکونؔ کا اب آپ پوچھنے آئے
چلا گیا ہے کہیں اٹھ کے اس مکان سے وہ

غزل
ہوا نہیں ہے ابھی منحرف زبان سے وہ
سلطان سکون