EN हिंदी
ہوا نہ ختم عذابوں کا سلسلہ اب تک | شیح شیری
hua na KHatm azabon ka silsila ab tak

غزل

ہوا نہ ختم عذابوں کا سلسلہ اب تک

شکیل اعظمی

;

ہوا نہ ختم عذابوں کا سلسلہ اب تک
خزاں کی زد میں بھی اک پھول ہے ہرا اب تک

ملا تھا زہر جو ورثے میں پی رہے ہیں ہم
نہ اس نے صلح کی سوچی نہ میں جھکا اب تک

یہ سچ ہے وہم کے دلدل سے لوٹ آیا ہوں
مگر یقین کا دھندلا ہے آئنہ اب تک

انہی غموں کا وہ اک دن حساب مانگے گا
فلک سے جو مرے کشکول میں پڑا اب تک

ابھی ابھی مری آنکھوں نے کھو دیا اس کو
وہ درد بن کے مری سسکیوں میں تھا اب تک

نہ جانے کتنی بلی دی ہے رت جگوں کی اسے
مگر ملا نہ وہ خوابوں کا دیوتا اب تک

جدا ہوئی تھی جہاں مل کے زندگی اک دن
بھٹک رہی ہے وہیں میری آتما اب تک