EN हिंदी
ہوا ختم دریا تو صحرا لگا | شیح شیری
hua KHatm dariya to sahra laga

غزل

ہوا ختم دریا تو صحرا لگا

عادل منصوری

;

ہوا ختم دریا تو صحرا لگا
سفر کا تسلسل کہاں جا لگا

عجب رات بستی کا نقشہ لگا
ہر اک نقش اندر سے ٹوٹا لگا

تمہارا ہزاروں سے رشتہ لگا
کہو سائیں کا کام کیسا لگا

ابھی کھنچ ہی جاتی لہو کی دھنک
میاں تیر ٹک تیرا ترچھا لگا

لہو میں اترتی رہی چاندنی
بدن رات کا کتنا ٹھنڈا لگا

تعجب کے سوراخ سے دیکھتے
اندھیرے میں کیسے نشانہ لگا