ہوا کرے جو اندھیرا بہت گھنیرا ہے
کسی کی زلف تلے ہر سمے سویرا ہے
حکایت لب و رخسار میں گزار دیں وقت
جہاں میں صرف گھڑی دو گھڑی بسیرا ہے
جلاؤ گھر کی منڈیروں پہ چشم و دل کے دیے
بہاؤ گیت برہ کے بہت اندھیرا ہے
وہ محتسب ہو کہ شحنہ کہ مفتی و قاضی
ہمارا کوئی نہیں ہے ہر ایک تیرا ہے
مرے دماغ کے خناس نے پسند کیا
کھنڈر کے ہفت بلاؤں کا جس میں ڈیرا ہے
میں برگ زرد ہوں شایان التفات نہیں
حسین گل کو حسیں تتلیوں نے گھیرا ہے

غزل
ہوا کرے جو اندھیرا بہت گھنیرا ہے
گیان چند جین