ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا
فدا کرتا ہوں ہر دم جی کوں اپنے یار جانی کا
دیے میں جوں بتی ہو یوں دہکتی ہے زباں مکھ میں
کروں جس رات کے اندر بیاں سوز نہانی کا
انجہو انکھیاں کے روغن ہیں ہمارے شعلۂ دل کوں
بجھانا عشق کی آتش نہیں ہے کام پانی کا
اثر کرتا ہے نالہ آبروؔ کا سنگ کے دل میں
ہنر سیکھا ہے شاید کوہ کن سوں تیشہ رانی کا
غزل
ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا
آبرو شاہ مبارک