EN हिंदी
ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا | شیح شیری
hua hun dil seti banda piya ki mehrbani ka

غزل

ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا

آبرو شاہ مبارک

;

ہوا ہوں دل سیتی بندا پیا کی مہربانی کا
فدا کرتا ہوں ہر دم جی کوں اپنے یار جانی کا

دیے میں جوں بتی ہو یوں دہکتی ہے زباں مکھ میں
کروں جس رات کے اندر بیاں سوز نہانی کا

انجہو انکھیاں کے روغن ہیں ہمارے شعلۂ دل کوں
بجھانا عشق کی آتش نہیں ہے کام پانی کا

اثر کرتا ہے نالہ آبروؔ کا سنگ کے دل میں
ہنر سیکھا ہے شاید کوہ کن سوں تیشہ رانی کا